Add To collaction

28-Dec-2021 حضرت موسیٰ علیہ السلام

حضرت موسیٰ علیہ السلام
قسط_نمبر_2
حصہ_دوم 
حضرت موسیٰ ﷺ کی ولادت اور آپ کی حفاظت:
فرعون بنی اسرائیل کو ملنے والی بشارت اور اپنے خواب کی وجہ سے بے حد خوفزدہ ہوا لہذا اس نے ہر طرح کی احتیاطی تدابیر اختیار کیں، تا کہ موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہی نہ ہوتی کہ اس نے کچھ مردوں اور دایہ عورتوں کو اس کام کے لیے مقرر کر دیا تھا کہ جو عورتیں امید سے ہوں، ان کے پاس جائیں اور ان کے ہاں پیدائش کے اوقات کا علم رھیں ، چنانچہ جب بھی کسی عورت کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا تھا، وہ جلاد اسی وقت اسے ذبح کر دیتے تھے۔ اہل کتاب کہتے ہیں کہ وہ لڑکوں کوقتل کر نے کا حکم اس لیے دیتا تھا کہ بنی اسرائیل کی طاقت نہ بڑھ جاۓ اورکسی لڑائی کے موقع پر وہ غالب نہ آ جائیں ۔
یہ بات محل نظر ہے، بلکہ واضح طور پر غلط ہے ۔ یہ بات بچوں کے قتل کے اس حکم کے بارے میں کہی جاسکتی ہے جو فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت ملنے کے بعد جاری کیا۔ جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
’’ پس جب ان کے پاس ( موسیٰ ) ہماری طرف سے (دین حق لے کر آۓ تو انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ جو ایمان والے ہیں ، ان کے لڑکوں کو تو مار ڈالو اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھو ‘‘ (المؤمن: 25/40 )
اسی وجہ سے بنی اسرائیل نے کہا تھا:
ہم تو ہمیشہ مصیبت ہی میں رہے، آپ کی تشریف آوری سے قبل بھی اور آپ کی تشریف آوری کے بعد بھی ‘‘ (الأعراف: 129/7 )
اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ فرعون نے بچوں کے قتل کا پہلا حکم موسیٰ علیہ السلام کے وجود میں آنے کے ڈر سے جاری کیا تھا۔ ادھر فرعون کی یہ تدبیریں تھیں ، ادھر تقدیر اس پر ہنس رہی تھی اور کہ رہی تھی: اے ظالم بادشاہ! جسے اپنی افواج کی کثرت پر اپنے اقتدار کی طاقت پر اور وسیع سلطنت پر غرور ہے، اس عظیم خالق کی طرف سے جس کی تقدیر کا کوئی توڑ نہیں اور جس کے فیصلوں کو رد کرنے کی کسی کو مجال نہیں ، یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ جس بچے سے تو خوف زدہ ہے، جس کی وجہ سے تو نے بے شمار معصوم بچوں کوقتل کیا ہے، وہ تیرے ہی گھر میں پرورش پاۓ گا اور تیرے ہی گھر میں کھاۓ پیے گا ، تو خود سے بیٹا بنا کر پالے گا اور رب کے بھیدوں کو نہیں جانے گا ، پھر تیری دنیا اور آخرت کی تباہی اسی کے ہاتھوں ہو گی کیونکہ تو اس کے لاۓ ہوۓ واضح حق کو جھٹلاۓ گا اور اس پر نازل ہونے والی وحی پر ایمان نہ لاۓ گا اور اس لیے بھی کہ تجھے بلکہ تمام مخلوق کو معلوم ہو جاۓ کہ آسمانوں اور زمین کے مالک ہی کی یہ شان ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ، وہی قدرت وقوت والا ہے، اس کی مشیت ہر حال میں پوری ہو کر رہتی ہے۔
متعدد مفسرین نے بیان کیا ہے کہ قبطیوں نے فرعون سے شکایت کی کہ بنی اسرائیل کے لڑکے قتل کر نے کی وجہ سے ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے اور خطرہ ہے کہ ان کے بڑے مرتے جائیں گے اور بچے قتل ہوتے جائیں گے تو ایک وقت آۓ گا جب ہمیں وہ کام خود کرنے پڑیں گے جو بنی اسرائیل کر تے ہیں ۔ تب فرعون نے حکم دیا کہ ایک سال بچے قتل کیے جائیں اور ایک سال رہنے دیے جائیں ۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ہارون علیہ السلام اس سال پیدا ہوۓ جس سال بچے قتل نہیں کیے جار ہے تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اس سال پیدا ہوۓ جس سال بچے قتل کیے جارہے تھے ۔ آپ کی والدہ فکر مند ہوئیں اور انہوں نے حمل کے ابتدائی ایام ہی سے احتیاط کی ۔ان سے حمل کی علامات بھی ظاہر نہ ہوئیں ( جس کی وجہ سے دوسروں کو حمل کاعلم نہ ہوسکا۔) جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو اللہ تعالی نے ان کے دل میں ڈال دیا کہ ان کے لیے ایک صندوق بنالیں ۔ آپ کا گھر نیل کے کنارے پر تھا۔ آپ نے صندوق کو ایک رسی سے باندھ دیا۔ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دودھ پلاتیں اور جب خطر محسوس کرتیں تو آپ کو صندوق میں ڈال کر دریا میں چھوڑ دیتیں ۔خود رسی کا سرا پکڑے رکھتیں ۔ جب خطرہ دور ہو جا تا تو رسی کے ذریعے سے صندوق کھینچ کر بچے کو نکال لیتیں ۔ارشاد باری تعالی ہے:
اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو وحی کی کہ اسے دودھ پلاتی رہ اور جب تجھے اس کی نسبت کوئی خوف معلوم ہو تو اسے دریا میں بہا دینا اور کوئی ڈر خوف یا رنج و نم نہ کرنا۔ ہم یقینا اسے تیری طرف لوٹانے والے ہیں اور اسے پیغمبروں میں سے بنانے والے ہیں ۔سو فرعون کے لوگوں نے اس بچے کو اٹھالیا آ خر کار یہی بچہ ان کا دشمن ہوا اور ان کے رنج کا باعث بنا۔ کچھ شک نہیں کہ فرعون ، ہامان اور ان کے لشکر تھے ہی خطا کار۔ اور فرعون کی بیوی نے کہا: یہ تو میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے قتل نہ کرو، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں کوئی فائدہ پہنچاۓ یا ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنالیں اور وہ (انجام سے بے خبر تھے ‘‘ ° (القصص) حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں کی طرف جو وحی کی گئی اس وحی سے مراد الہام اور رہنمائی ہے ۔ جیسے اللہ تعالی کا ارشاد ہے:-
آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں ، درختوں میں اور لوگوں کی بنائی ہوئی اونچی اونچی پردہ والی جگہوں میں اپنے گھر (چتے ) بنا پھر ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس اور اپنے رب کی آسان راہوں پر چلتی پھرتی رہ‘‘ (النحل: 16 / 68-69 ) 
امام سہیلی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام’ایارخا’ ہا "ایاذخت‘‘ تھا۔ ان کے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ خوف و غم نہ کر اگر یہ بچہ تیرے پاس سے چلا گیا تو اللہ تعالی اسے تیرے پاس واپس لاۓ گا ، اسے نبوت عطا فرماۓ گا اور دنیا وآخرت میں اس کی شان بڑھاۓ گا چنانچہ انہوں نے الہام کے ذریعے سے ملنے والے حکم کی تعمیل کی ۔ ایک دن انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کے صندوق کو دریا میں ڈالا لیکن اس کی رسی باندھنا بھول گئیں ۔صندوق دریاۓ نیل کے پانی میں بہتا چلا گیا،حتی کہ فرعون کے محل کے پاس سے گزرا تو فرعون کے لوگوں نے اس کو اٹھا لیا۔
ارشاد باری تعالی ہے:  "آخر کار یہی بچہ ان کا دشمن ہوا اوران کے رنج کا باعث بنا۔ کچھ شک نہیں کہ فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر تھے ہی خطا کار ۔‘‘
(حوالہ: قرآن و احادیث صحیحہ کی روشنی میں
ماخوذ ازالبدایہ والنہایہ
تالیف / امام ابوالفداءابن کثیرالدمشقی رحمتہ علیہ) 
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔
طالب دعا ء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com

   8
5 Comments

Sobhna tiwari

08-Jan-2022 12:11 PM

Nyc 🔥

Reply

Zainab Irfan

08-Jan-2022 12:05 PM

Good

Reply

Farida

08-Jan-2022 11:55 AM

Good

Reply